چشمِ الطاف و عنایاتِ مکرر میں ہے

مجھ سا بے مایہ بھی اُس شہرِ تونگر میں ہے

ایک تسکین سی رہتی ہے پسِ حرفِ طلب

اُس سے مانگا ہے تو اب اپنے مقدر میں ہے

عشق کا سارا وظیفہ ہے تری دید کا شوق

حسن کا سارا کرشمہ ترے پیکر میں ہے

نطق کے طاق میں رکھا ہے ترا اسم چراغ

اور کرنوں کا تواتر ہے کہ منظر میں ہے

فردِ عصیاں ہے، مدینہ ہے اور اک توبہ نصیب

شکر ہے فیصلہ خود دستِ پیمبر میں ہے

خواب کے ٹوٹتے لمحے کی قسم ہے مقصودؔ

خواب کا منظرِ دلکش دلِ مُضطَر میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]