چلا ہے شان سے کربل ، جگر حسینؓ کا ہے

بہت کٹھن ہے مگر یہ سفر حسینؓ کا ہے

تجھے بتاؤں کہ کربل کا فائدہ کیا ہے؟

جو دین زندہ ہے اب ، یہ اثر حسینؓ کا ہے

وہ شاہِ خلد ہیں سردار نوجوانوں کے

خدا سے پیار کا ایسا اجر حسینؓ کا ہے

جو جا رہے ہو اگر سوئے کربلا لوگو

ادب سے سر کو جھکاؤ نگر حسینؓ کا ہے

فرات روتا رہا پر نہ ایک قطرہ لیا

سلام اس پہ کے سب خشک و تر حسینؓ کا ہے

عطا کو زیب کہ لکھے ضرور شانِ حسینؓ

گناہ گار سہی پر پسر حسینؓ کا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]