چلو اداسی کے پار جائیں

بکھر رہا ہے خیال کوئی
سوال کوئی، ملال کوئی
کہاں ہے؟ کس کی؟ مجال کوئی
کہ آنکھ جھپکے
ترے تصور سے دور جائے
مگر یہ ضد کہ ضرور جائے
تمہارے غم میں سسک سسک کر
اکھڑ چکی ہے طناب غم کی
مگر کسی کی مجال کیا ہے
کہ روک پائے
یہ سلسلہ ہائے روزو شب
اور اداس رستہ
اداسیوں کے شجر بھی دیکھو
کہ گاہے گاہے اُگے ہوئے ہیں
تو آؤ اپنی نگاہِ پرنم
سے آب دے کر
نمو بڑھائیں اداسیوں کی
کسی کو روکیں،کسی سے روٹھیں
کسے منائیں؟
کسے منا کر گلے لگائیں؟
کبھی ملونا کہ مسکرائیں
جو آگئے ہو تو کیا ٹھہرنا
چلو اداسی کے پار جائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]