چل پڑے ہیں سوئے طیبہ خود کو مہکائے ہوئے

آج ہم اپنے مقدر پر ہیں اترائے ہوئے

یوں تو اس قابل نہیں پر ہے کرم سرکار کا

اُن کی چوکھٹ مِل گئی ہم فیض ہیں پائے ہوئے

اَب تو لگتا ہے کہ ہو جائے گی بارش نور کی

بھیگی بھیگی ہے فضا بادل بھی ہیں چھائے ہوئے

جوش میں آ جائے اَب دریائے رحمت آپ کا

بیٹھے ہیں دَر پر بھکاری ہاتھ پھیلائے ہوئے

دید کی حسرت لئے عاشق بڑے بے تاب ہیں

ہو کرم کی اک نظر ہیں دور سے آئے ہوئے

دل کو ذکرِ مصطفیٰ سے کر لیا ہے نور بار

ڈالیاں صل علیٰ کی ساتھ ہیں لائے ہوئے

ناز اک دن چھوڑ کر جانا پڑے گا یہ نگر

اشک بھی تھمتے نہیں اور دل ہیں گھبرائے ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]