چمکتے ستارے! اگر میں تری طرح لافانی ہوتا

چمکتے ستارے! اگر میں تری طرح لافانی ہوتا
تو اس طرح تنہائی میں بامِ شب پر معلق نہ ہوتا
کسی رات بھر جاگنے والے صحرا نشیں سا نہ ہوتا
نہ اپنی ابدتاب پلکیں بکھیرے
رواں پانیوں کو وضو کرتے تکتا
زمینوں کے چَو گرد اور نسلِ انساں کے سب ساحلوں تک
نہ میں تانکتا جھانکتا برف والے نقابوں کو
سب چوٹیوں ، وادیوں سے سرکتے ہوئے

نہیں ، میں اگر تجھ سا لافانی ہوتا
تو اپنی جواں سال محبوبۂ نرم و نازک کے گدرائے
بھرپور سینے کو تکیہ بناتا
وہ جب سانس لیتی تو محسوس کرتا
شفق رنگ سینے کے ہر زیروبم کو
شب و روز میں چند میٹھی اُمیدوں سے بیدار رہتا
ہمیشہ ہمیشہ میں اُس کی مہک ریز سانسوں کو سُنتا
ابد تک ، ابد تک میں لافانی رہتا
اگر یوں نہیں تو ۔۔۔

اچانک میں مر جاتا اور پُھوٹ جاتا
فلک سے میں چُپ چاپ ہی ٹوٹ جاتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]