چمکتے ستارے! اگر میں تری طرح لافانی ہوتا
تو اس طرح تنہائی میں بامِ شب پر معلق نہ ہوتا
کسی رات بھر جاگنے والے صحرا نشیں سا نہ ہوتا
نہ اپنی ابدتاب پلکیں بکھیرے
رواں پانیوں کو وضو کرتے تکتا
زمینوں کے چَو گرد اور نسلِ انساں کے سب ساحلوں تک
نہ میں تانکتا جھانکتا برف والے نقابوں کو
سب چوٹیوں ، وادیوں سے سرکتے ہوئے
نہیں ، میں اگر تجھ سا لافانی ہوتا
تو اپنی جواں سال محبوبۂ نرم و نازک کے گدرائے
بھرپور سینے کو تکیہ بناتا
وہ جب سانس لیتی تو محسوس کرتا
شفق رنگ سینے کے ہر زیروبم کو
شب و روز میں چند میٹھی اُمیدوں سے بیدار رہتا
ہمیشہ ہمیشہ میں اُس کی مہک ریز سانسوں کو سُنتا
ابد تک ، ابد تک میں لافانی رہتا
اگر یوں نہیں تو ۔۔۔
اچانک میں مر جاتا اور پُھوٹ جاتا
فلک سے میں چُپ چاپ ہی ٹوٹ جاتا