چند لمحے ہی سہی لیکن ملی ہے زندگی

میں چلو فانی ہوا کیا دائمی ہے زندگی

اور ہی کچھ مہرباں ہستی ہے دنیا کے لیے

یا مرے حصے میں جو آئی وہی ہے زندگی

زندگی کو کس قدر حسرت سے تکتا تھا کبھی

آج اک حسرت سے جس کو دیکھتی ہے زندگی

دیدہ و دل فرشِ راہِ شوق تھے ، مٹی ہوئے

اب تمہارا لوٹ آنا لازمی ہے زندگی

ڈوبتی آنکھوں سے تکتا ہوں پسِ دیوار میں

دوسری جانب جھکائے سر کھڑی ہے زندگی

نیم جاں بیٹھا ہوا ہوں مرگ کے پیڑوں تلے

اور زانو پر مرے سوئی ہوئی ہے زندگی

مدتوں سے دل گھٹا ہے دم بخود سانسیں مری

حآدثہ ہونے سے پہلے رک گئی ہے زندگی

تیر پہلو میں لگا ہے مرگِ خوابِ شوق کا

شدتِ تکلیف سے دوہری ہے زندگی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]