چہار سمت سے رقصاں ہوائیں کیا کیا ہیں

نظارہ خوب ہے چھائی گھٹائیں کیا کیا ہیں

بہ بارگاہِ خدا التجائیں کیا کیا ہیں

مریضِ ہجر کے حق میں دعائیں کیا کیا ہیں

فراق و کرب، غم و التہاب و بیتابی

بہ جرمِ عشقِ بتاں اف سزائیں کیا کیا ہیں

ہماری لغزشِ پا کا بہت ہی امکاں ہے

کہ فتنہ ہائے حسیں دائیں بائیں کیا کیا ہیں

کوئی شمار کرے گر شمار کر نہ سکے

خدا کی بندوں کو اپنے عطائیں کیا کیا ہیں

کوئی ورق بھی تو سادہ نہیں خدا کی پناہ

ہماری فردِ عمل میں خطائیں کیا کیا ہیں

کچھ ایک دو تو نہیں آپ سے ہمیں شکوے

ہٹائیں بھی اب، کیا بتائیں کیا کیا ہیں

نہ آئے تھے تو تعفن سے پُر زمانہ تھا

وہ آ گئے تو معطر فضائیں کیا کیا ہیں

جو سیدھی راہ ہے چلنا ہے مستقل اس پر

رکاوٹوں کو نہ خاطر میں لائیں کیا کیا ہیں

ضیاعِ جاں کا بھی خطرہ ہے صرفِ زر کے سوا

رہِ خدا میں نظرؔ ابتلائیں کیا کیا ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]