چہرۂ ماہ و خور نہیں چہرۂ حورِ عیں نہیں

مثلِ نبیِ مجتبیٰ چہرہ کوئی حسیں نہیں

در صفِ انبیاء نہیں در صفِ مرسلیں نہیں

ان سا کہاں ملے کوئی، ان سا کوئی کہیں نہیں

تختِ نبوت آپ کا صلِّ علیٰ، علی الدوام

سب کے تو جانشیں ہوئے، آپ کا جانشیں نہیں

آپ حبیبِ کبریا، آپ امامِ انبیاء

امر ہے یہ مسلّمہ اس میں چناں چنیں نہیں

ان کی کتاب آخری حکمت و علم سے بھری

کون سی بات اس میں ہے ایسی کہ پر یقیں نہیں

ذات ہے سو کریم ہے خلق ہے سو عظیم ہے

شاہدِ عدل ہے خدا کہتے یہ کچھ ہمیں نہیں

لذتِ گفتگو خوشا تا رگ و روح ہے رسا

اس کے مقابلے میں کچھ لذتِ انگبیں نہیں

مرکزِ کیف و نور ہے دیکھ لے ان کا آستاں

موت ہے گھات میں تری عمر کا کچھ یقیں نہیں

سادہ و دل نشیں رواں تیری ہے اے نظرؔ زباں

کس کے لبوں پہ بزم میں کلمۂ آفریں نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]