ڈھول کی تھاپ پر کہی گئی ایک نظم

سُن اے اَن دیکھی سانولی! تری آس مجھے ترسائے

مری رُوح کے سُونے صحن میں ترا سایہ سا لہرائے

ترے ہونٹ سُریلی بانسری ، ترے نیناں مست غزال

تری سانسوں کی مہکار سے مرا حال ہوا بے حال

کچھ دُھوپ ہے اور کچھ چھاوٗں ہے ترا گھٹتا بڑھتا پیار

انکار میں کچھ اقرار ہے ، اقرار میں کچھ انکار

مجھے بستی بستی لے پھرا تری سُندرتا کا عشق

مکّہ ، یثرب ، اور قونیہ ، دِلی ، مُلتان ، دمشق

میں سُدھ بُدھ کھو کر پی گیا من مستی والا جام

اب دُکھ میرا سُکھ چین ہے اور درد مرا آرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]