کاٹنا تھا محال رات ہمیں

کاٹنی پڑ گئی حیات ہمیں

میکدے عشق کے نہ چھٹتے تھے

تیرے صدقے ملی نجات ہمیں

ہم کہ ذروں سے ہارنے واے

اور درپیش کائنات ہمیں

کون سمجھا ہے آج تک آخر

کون سمجھائے گا یہ بات ہمیں

عمر داؤ پہ ایک عمر سے ہے

موت ہی آ سکی نہ مات ہمیں

اب تردد کی زحمتیں بھی نہیں

ڈھونڈ لیتے ہیں حادثات ہمیں

دل پہ عاشق ہے بے دلی ناصر

کھا گئے ہیں یہ التفات ہمیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]