کہیں جو خوبیٔ قسمت سے مجھ کو مِل جاتیں

خدا کے ہاتھ سے جنت کی خلعت و پوشاک

سنہری نور سے بُنوائے شوخ پیراہن

نہ جن کی جیب دریدہ ، نہ جن کا دامن چاک

انہیں میں تیرے حسیں پاؤں میں بچھا دیتا

خدا گواہ ، تری رہگزر سجا دیتا

مگر میں ایک تہی دست و رائیگاں شاعر

سوائے خواب مرے پاس اور کچھ بھی نہیں

سو میں نے خواب بچھائے ہیں ترے رستے میں

بجز سراب مرے پاس اور کچھ بھی نہیں

!سو اپنی راہ پہ ہولے سے پاؤں دَھر ، اے دوست

!نہ بھول ، چلتی ہے تُو میرے خواب پر ، اے دوست

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]