کب تلک بھیڑ میں اوروں کے سہارے چلئے

لوگ رستے میں ہوں اتنے تو کنارے چلئے

اب تو مجبور یا مختار گزارے چلئے

قرض جتنے ہیں محبت کے اتارے چلئے

جس نے بخشی ہے مسافت وہی منزل دے گا

ہو کے راضی برضا اُس کے اشارے چلئے

اُن کے لائق نہیں کچھ اشکِ محبت کے سوا

بھر کے دامن میں یہی چاند ستارے چلئے

معتبر ہوتی نہیں راہ میں گزری ہوئی رات

آ گئی شامِ سفر اپنے دُوارے چلئے

ہم بھی قائل نہیں رستے کو پلٹ کر دیکھیں

ماضی ڈستا ہے تو پھر ساتھ ہمارے چلئے

دشتِ ہجراں بھی گزر جائے گا عزّت سے ظہیرؔ

نامِ نامی اُسی رہبر کا پکارے چلئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]