کتابِ عرشِ ثنا کا عنواں ـ’’انا محمد‘‘

کتابِ عرشِ ثنا کا عنواں انا محمد

ہُوئے محمد ہیں خود ثنا خواں انا محمد

لطافتوں کے تمام لہجوں کا استعارہ

وہ مدحِ ممدوحِ حرفِ خُوباں انا محمد

کمال اوجِ سخن تھا اُس ایک زمزمے میں

فصیلِ لب پر ہُوا جو رخشاں انا محمد

اُتر رہے تھے وہ ظلمتوں پر ضیا کے موسم

کہ ہر طرف تھا سحر بہ داماں انا محمد

بصارتوں میں فروغِ طلعت وہ اسم عالی

سماعتوں میں سرودِ دوراں انا محمد

حصارِ جاں میں نئی سحر کی نوید مہکی

شبِ سیہ میں ہُوا فروزاں انا محمد

سخن میں جیسے حیات پرور ثنائے خواجہ

خیال میں رشکِ صد بہاراں انا محمد

جہانِ مدحت کا سارا منظر ہی دلکشا ہے

مگر ہے مدحت بھی جس پہ نازاں انا محمد

عجیب تسکین سی ہے اس کی تلاوتوں میں

ہر ایک کربِ نہاں کا درماں انا محمد

اِدھر سے مقصودؔ سانسیں دامن چھُڑا رہی تھیں

اُدھر ہوا زندگی کا ساماں انا محمد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]