کتنا بلند پایہ ہے دربارِ مصطفےٰ

’’روح الامیں ہیں غاشیہ بردارِ مصطفےٰ‘‘

دلکش ہیں ، دل پذیر ہیں اطوارِ مصطفےٰ

قرآں کا ترجمان ہے کردارِ مصطفےٰ

جان قمر ہے تابش رخسارِ مصطفےٰ

عنبر فشاں ہیں گیسوئے خمدارِ مصطفےٰ

نکلے سفر کو ، تھم گیا کونین کا نظام

کیا اہتمام ہے پئے دیدارِ مصطفےٰ

مہتاب و آفتاب ، ستاروں کی شکل میں

بکھرے ہیں آسمان پہ انوارِ مصطفےٰ

محشر میں جلوے بندہ نوازی کے دیکھنا

ہر غمزدہ سے ہوگا سروکارِ مصطفےٰ

سر ہی نہیں کہ جس میں نہ ہو خوئے بندگی

دل ہی نہیں کہ جو نہ ہو بیمارِ مصطفےٰ

مجھ کو کسی امیر کی چوکھٹ سے کیا غرض

دل ہے مرا ازل سے گرفتارِ مصطفےٰ

کیوں ان کی وصف خوانی میں رطب اللساں نہ ہو؟

ہے ساری کائنات نمک خوارِ مصطفےٰ

موج ہوا میں ذکر ، سمندر میں تذکرے

سارے جہاں میں گرم ہے بازارِ مصطفےٰ

کیونکر نہ ذکر کیجیے نواب شاہ کا

اے نور! یہ بھی ہیں گل گلزارِ مصطفےٰ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]