کتنے چراغ جل اٹھے، کتنے سراغ مل گئے

آنکھیں جنوں کی کیا کھلیں، اپنے تو ہونٹ سل گئے

ایسے پلٹ گئی ہوا دل کی کتاب کے ورق

یادوں کے کچھ گلاب جو کھوئے ہوئے تھے مل گئے

اک چہرے کی شباہتیں نکھریں مری نظر کے ساتھ

شاخ نظر جھکی جدھر کچھ عکس تازہ کھل گئے

اپنی تو خیر راہ میں تھیں کرچیاں ہی کرچیاں

پھولوں پہ چل رہے تھے جو اُن کے بھی پاؤں چھل گئے

دیکھا نہیں کہ مصلحت کے ہیں تقاضے کس طرف

دل سے بلایا جس نے جب، ہم تو بہ جان و دل گئے

اُن کی نظر سے کیا گرے اک زلزلہ سا اٹھ گیا

پندار کے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہل گئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]