کوئی بھی آگ ہو، شانہ بشانہ جلتا ہے
وہ میرے ساتھ ہے جب سے، زمانہ جلتا ہے
کوئی تو رہتا ہے دل کے کھنڈر مکانوں میں
چراغ شام کو اکثر پرانا جلتا ہے
دراز دستیء بادِ ستم کا شکوہ کیا
چراغ یادوں میں اب جاودانہ جلتا ہے
یہ انتظار شبستان دل میں ہے کس کا
نہ بجھ کے دیتا ہے کوئی دیا، نہ جلتا ہے
ہمارے شہر میں قیمت ہے روشنی پہ ابھی
دیا جلائیں تو پہلے ٹھکانہ جلتا ہے
وہ تیر عشق جو پیوستِ جاں ہوا تھا کبھی
نکل گیا، مگر اب تک نشانہ جلتا ہے
ذرا خیال سے چھُونا ظہیرؔ شاخِ نہال
گلابِ سرخ نہیں، آشیانہ جلتا ہے