کرم اتنا خدائے قادر و قیوم ہو جائے

ہے جس کی یہ اُسی کی امتِ مرحوم ہو جائے

محبت کا یہ جذبہ دل سے گر معدوم ہو جائے

نہ جانے پھر بشر کس نام سے موسوم ہو جائے

یہ کیا ہوتا ہے کیوں ہوتا ہے میں بتلا نہیں سکتا

کسی سے عشق ہو دل میں تو خود معلوم ہو جائے

مجھے قسمت پہ پروانوں کی اکثر رشک آتا ہے

جو ہے مقسوم ان کا وہ مرا مقسوم ہو جائے

زہے عز و شرف ان کا زہے محبوبیت ان کی

غلام ان کا جو بن جائے وہی مخدوم ہو جائے

زباں سے کہنے سے تکلیفِ غم واضح نہیں ہوتی

معاون ہوں اگر آنکھیں ادا مفہوم ہو جائے

جو باتیں روز مرہ کی ہیں ان کی قدر کیا لیکن

پہن لیں جب لباسِ شعر ان کی دھوم ہو جائے

نظرؔ آئینہ دارِ فرطِ غم فرطِ مسرت ہے

ان آنکھوں سے سبھی دل کی خبر معلوم ہو جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]