کسی بھی دشت کسی بھی نگر چلا جاتا

میں اپنے ساتھ ہی رہتا جدھر چلا جاتا

وہ جس مُنڈیر پہ چھوڑ آیا اپنی آنکھیں ، میں

چراغ ہوتا تو لو بھول کر چلا جاتا

اگر میں کھڑکیاں دروازے بند کر لیتا

تو گھر کا بھید سرِ رہ گزر چلا جاتا

مِرا مکاں مِری غفلت سے بچ گیا ورنہ

کوئی چرا کے مرے بام و در چلا جاتا

تھکن بہت تھی مگر سایۂ شجر میں جمال

میں بیٹھتا تو مِرا ہم سفر چلا جاتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]