کسی کو روک لیں ہم، ایسے کم نگاہ نہیں

مسافرانِ محبت ہیں سنگِ راہ نہیں

ق

ستم تو یہ ہے کہ دنیا تمہارے زیرِ ستم

تمہارے ظلم کا پھر بھی کوئی گواہ نہیں

کھلا ہے کون سا رستہ سپاہِ جبر سے آج

بچا ہے کون سا قریہ جو رزم گاہ نہیں؟

متاع ہستی کہاں رکھئے اب بجز مقتل

کسی طرف بھی کوئی گوشۂ پناہ نہیں

حلیف بیچ گئے مجھ کو اپنی جاں کے عوض

مرے بچاؤ کی باقی کوئی بھی راہ نہیں

کھلے ہیں چند شگوفے مثالِ دستِ دعا

یہ دشتِ بے ثمر اتنا بھی بے گیاہ نہیں

غبارِ کشتۂ مظلوم عرش چھُو لے گا

نصیبِ فرش نہ ہو گا، یہ گردِ راہ نہیں

اگر ظہیرؔ ہو شانے پر اپنے دستِ حبیب

عدو سے ہاتھ ملانا کوئی گناہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]