کفن کو کھول کے صورت دکھائی جاتی ہے

کہ زندگی کی حقیقت بتائی جاتی ہے

نگاہ و دل میں وہ سب کے سمائی جاتی ہے

ادائے خاص کہ ساقی میں پائی جاتی ہے

خموش ہو کے میں سنتا ہوں اہلِ دنیا سے

مجھی کو میری کہانی سنائی جاتی ہے

مزاجِ دل یہ بدلنا تھا اور نہیں بدلا

اگرچہ خوں میں تمنا نہائی جاتی ہے

خوشا نصیب کہ منزل پہ دار کی پہنچا

سکوں ملا ہے تو اب نیند آئی جاتی ہے

نگاہِ غیر نہ پڑ جائے یوں تری تصویر

نگار خانۂ دل میں سجائی جاتی ہے

گرا ہے قعرِ مذلت میں اے نظرؔ افسوس

غلط روی میں تو ٹھوکر ہی کھائی جاتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]