کل بھی تھا ہوں آج بھی ہوں گا بھی آئندہ فقیر
مصطفیٰ سے عشق میں ہوں خوب تابندہ فقیر
مصطفیٰ سے عشق میں دیکھو مرا ایمان تُو
حشر میں بھی دیکھتا ہوں گا میں گل شندہ فقیر
اے خدا!دکھ دے مجھے لیکن ذرا یہ دیکھنا
میں نبی تیرا نہیں، بندوں میں ہوں بندہ فقیر
کیوں مرے دل کی دعا آئے پلٹ کر عرش سے
پیر کامل ہے مرا کوہاٹ میں زندہ فقیر
مصطفیٰ سے عشق میں تیرا ہوں اک ادنیٰ غلام
آپ کے ہوتے بھلا کیوں ہو گا شرمندہ فقیر
تیری خوشبو یہ جہاں گل ہے مدینہ آپ کا
کاش! میں ہوتا مدینے کا ہی باشندہ فقیر