کوئی بھیک رُوپ سُروپ کی، کوئی صدقہ حسن و جمال کا

شب و روز پھرتا ہوں دربدر، میں فقیر شہرِ وصال کا

کسے فکر بُود نبُود کی، کسے ہوش ہے مہ و سال کا

مری آںکھ میں ہے بسا ہوا کوئی مُعجزہ خدوخال کا

بڑی شُستگی سے نبھا گیا سبھی چشم و لب کے معاملے

سو کھلا کہ صرف حسیں نہ تھا، وہ ذہین بھی تھا کمال کا

یہاں دوستوں کا ہجوم ہے مجھے اِس سے کیا، مجھے اُس سے کیا

مجھے علم ہے کہ ترے سوا کوئی حال نہیں میرے حال کا

یہاں دوستوں کا ہجوم ہے مجھے اِس سے کیا، مجھے اُس سے کیا

مجھے علم ہے کہ ترے سوا کوئی حال نہیں میرے حال کا

میرے حرف دشتِ خیال میں کہیں چین لیتے نہ تھے مگر

وہاں آ کے رام ہوئی غزل، جہاں رم تھا میرے غزال کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]