کوئی بھی آگ ہو، شانہ بشانہ جلتا ہے

وہ میرے ساتھ ہے جب سے، زمانہ جلتا ہے

کوئی تو رہتا ہے دل کے کھنڈر مکانوں میں

چراغ شام کو اکثر پرانا جلتا ہے

دراز دستیء بادِ ستم کا شکوہ کیا

چراغ یادوں میں اب جاودانہ جلتا ہے

یہ انتظار شبستان دل میں ہے کس کا

نہ بجھ کے دیتا ہے کوئی دیا، نہ جلتا ہے

ہمارے شہر میں قیمت ہے روشنی پہ ابھی

دیا جلائیں تو پہلے ٹھکانہ جلتا ہے

وہ تیر عشق جو پیوستِ جاں ہوا تھا کبھی

نکل گیا، مگر اب تک نشانہ جلتا ہے

ذرا خیال سے چھُونا ظہیرؔ شاخِ نہال

گلابِ سرخ نہیں، آشیانہ جلتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]