کوئی فخر زہد و تقویٰ، نہ غرورِ پارسائی

مجھے سب خبر ہے کیا ہے مرے نفس کی کمائی

مجھے جب کبھی اندھیرے ملے راہِ جستجو میں

نئی مشعل تمنا ترے نام کی جلائی

اسے کیوں نہ سر پہ رکھوں، یہ جزائے بندگی ہے

ترے نام سے مزیّن مرا کاسۂ گدائی

وہ جو ضبط سے نہ نکلا، کبھی نطق تک نہ پہنچا

اُسی حرفِ نارسا کی ہوئی عرش تک رسائی

ہے مرا وجود ثابت، ہے مرا شمار ممکن

مرے صفر سے ہے پہلے تری ذات کی اکائی

نہ جھکا سکے جو سر کو وہ عمامۂ فضیلت

سرِ بزم علم و دانش ہے کلاہِ خود نمائی

مرے چارہ گر سے کہہ دو یہ مرض ہے آگہی کا

نہ کرے گی کام اِس میں کوئی نیند کی دوائی

مری چشمِ خوش گماں تُو مری دوست ہے کہ دشمن

تو نے خواب ایسے دیکھے مجھے نیند ہی نہ آئی

ہیں بجھے بجھے سے دونوں، سبھی رونقوں سے خالی

مری بزمِ ترکِ الفت، ترا جشنِ بے وفائی

کہیں لے گئیں ہوائیں وہ محبتوں کے فانوس

شب و روز بجھ رہے ہیں مہ و سالِ آشنائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]