اردوئے معلیٰ

مجھے نسبت جو کسی در سے نہ دربار سے ہے

یہ عنایت بھی ترے نام کی سرکار سے ہے

 

بادبانوں کا تکلف نہیں کشتی میں مری

آسرا مجھ کو ہوا سے نہیں پتوار سے ہے

 

گونج رہ جائے گی میری جو صدا مر بھی گئی

اتنی امید مجھے شہر کی دیوار سے ہے

 

شورِ زنجیر بپا رکھتی ہے جکڑی ہوئی امید

دل کی دھڑکن میں ترنم اسی جھنکار سے ہے

 

سرخیاں حسبِ خبر ہیں، نہ خبر حسبِ حال

پڑھنے والوں کو گلہ آج کے اخبار سے ہے

 

عشق کی دین نہیں، جبرِ ضرورت ہے یہ ہجر

خلعتِ درد خریدی ہوئی بازار سے ہے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ