کوئی میرے اشک پونچھے ، کوئی بہلائے مجھے

یُوں نہ ہو لوگو! اُداسی راس آ جائے مجھے

عشق نے ایسے سُہانے رنگ پہنائے مجھے

گُل تو گُل ہیں ، چاند تارے دیکھنے آئے مجھے

ربِّ گریہ بخش! تجھ کو آنسوؤں کا واسطہ

دیکھ، کافی ہو چکی، اب عشق ہو جائے مجھے

کیا خبر اُس کے پلٹنے تک مرا کیا حال ہو

اُس سے کہنا جاتے جاتے دیکھتا جائے مجھے

جیسے اک تصویر سے ہوجائے وا البم تمام

تُو ملا تو سب پُرانے دوست یاد آئے مجھے

میں بفیضِ عشق روشن صُورتِ مہتاب ہوں

جس کسی میں دم ہو ، آئے اور گہنائے مجھے

درمیانہ قد ہے ، آنکھیں نَم ہیں ، فارس نام ہے

جس کسی کو بھی ملوں ، صحرا میں چھوڑ آئے مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]