کوششِ مسلسل بھی رائیگاں سی لگتی ہے

آرزوئے دل اب تو نیم جاں سی لگتی ہے

کچھ مشیتِ یزداں سرگراں سی لگتی ہے

یا مری طبیعت ہی بد گماں سی لگتی ہے

نغمہ جُو نہ ہو اے دل وقت اب نہیں ایسا

ہر گھڑی مجھے دنیا نوحہ خواں سی لگتی ہے

جب بھی آئے یہ ظالم ساتھ لے کے ہے جائے

موت زندگی کی کچھ رازداں سی لگتی ہے

فنِ سحر کہیے یا سحرِ فن ستم گر کا

جور و قہر کی صورت مہرباں سی لگتی ہے

عضو عضو ناکارہ عالمِ ضعیفی میں

جز نظرؔ کہ ہے بالغ نوجواں سی لگتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]