کون آخر زینتِ آغوشِ محفل ہو گیا

ایک ہی نظارہ میں جانِ رگِ دل ہو گیا

دو نگاہوں کا تصادم اپنا اپنا پھر نصیب

کوئی قاتل اور کوئی مرغِ بسمل ہو گیا

اے دلِ نا عاقبت اندیش جلتا ہے تو جل

حسنِ عالم سوز کے تو کیوں مقابل ہو گیا

ہیں کرم فرما کبھی اس پر کبھی جور آزما

خوب ہے جیسے انہیں کا دل مرا دل ہو گیا

حشر سے پہلے نہیں امکان اٹھنے کا مرے

مر کے اب تو اور پابندِ سلاسل ہو گیا

دل رکا۔ دھڑکن گئی۔ آنسو تھمے ۔سوزش مٹی

موت کیا آئی سکونِ قلب حاصل ہو گیا

التفاتِ چشمِ ساقی کیا ہوا مجھ پر نظرؔ

میں بھی جانِ التفاتِ اہلِ محفل ہو گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]