کِتنی بلندیوں پہ ہے اَیوانِ فاطمہ

رُوح الاَمِیں ہے صُورت دربانِ فاطمہ

حاصل کہاں دَماغ کو عرفانِ فاطمہ؟

خُلدِ بریں ہے نقشۂ اِمکانِ فاطمہ

کیا سوچیے بہارِ گُلستانِ فاطمہ

حَسنین جب ہوں سُنبل و ریحانِ فاطمہ!

کچھ اس لیے بھی مجھ کو تلاوت کا شوق ہے

قرآن ہے لفظ لفظ ثنا خوانِ فاطمہ

نَبیوں پہ حُکم ہے کہ نِگاہیں جھکی رہیں

توحید حشر میں ہے نگہبانِ فاطمہ

اِس کو مِٹا سکیں گی نہ باطل کی سازشیں

اِسلام پر ہے سایۂ دامانِ فاطمہ

کرتے پھریں زمیں پہ تجارت بہشت کی

اپنے گدا گروں پہ ہے فیضانِ فاطمہ

ہر نقشِ پا میں جذب ہے فتحِ مبیں کی مہر

دیکھے ‘‘مباھلہ’’ میں کوئی شانِ فاطمہ

ختمِ رُسُل کی گود ہے عِصمت کی جانماز

چہرہ علی ولی کا ہے قُرآنِ فاطمہ

مفہومِ ‘‘ ماتَشاء ’’ کی قَسم کائنات میں

فرمانِ کردگار ہے فرمانِ فاطمہ

وہ کل بھی‘‘پنجتن’’میں صدارت مقام تھی

منصب یہی ہے آج بھی شایانِ فاطمہ

ہے کُفر اِس کے قَول پہ حاجت گواہ کی

ایمانِ کل ہے شاہد ایمانِ فاطمہ

اِس انتظار میں ہے قیامت رُکی ہوئی

شاید ابھی کچھ اور ہو فرمانِ فاطمہ

کیسے کروں تَمیز حسن اور حسین میں

اِک رُوحِ فاطمہ ہے تو اِک جانِ فاطمہ

رُومالِ فرقِ حُر ہے گواہی اِس اَمر کی

بخشش کی سَلسَبِیل ہے اِحسان فاطمہ

اولادِ فاطمہ نہ ہو دیں پر نثار کیوں؟

نُقصانِ دیں ہے اصل میں نُقصانِ فاطمہ

بابِ بتول ہو کہ درِ خیمۂ حسین

ہر دَور میں لُٹا سروسامانِ فاطمہ

میں سوچتا ہوں لکھ دُوں وفا کے نصاب میں

فِضّہ کا نام شمعِ شِبستانِ فاطمہ

اِک مرثیہ ہے خُونِ شہیداں کی بُوند بوند

بِکھرا ہُوا ہے ریت پہ دیوانِ فاطمہ

نیزے کی نوک پر ہے مجھے رحل کا گماں

اُس پر سرِ حسین ہے قرآنِ فاطمہ

دیکھ اے مزاجِ مصحفِ ناطق کی بَرہمی

شُعلوں کی زد میں سُورۂ رَحمٰنِ فاطمہ

فوجِ ستم کے سامنے کب ہے علی کا لال؟

شک کے مقابلے میں ہے ایقانِ فاطمہ

بابِ بہشت پر مجھے روکے گا کیوں کوئی؟

محسن میں ہوں غلامِ غُلامانِ فاطمہ!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]