کچھ اور ہو گا رنگِ طلب ، جالیوں کے پاس

روتا رہوں گا مہر بہ لب ، جالیوں کے پاس

لکھوں کا جب قصیدۂ حُسنِ گُلِ مراد

سوچوں گا کچھ جدید لقب ، جالیوں کے پاس

مل جائے گی سُخن کو سند اعتبار کی

نعتِ نبی کہوں گا میں جب جالیوں کے پاس

اللہ دعا قبول کرے ، اہلِ حُب و شوق

پہنچیں ترے حضور میں سب ، جالیوں کے پاس

دن بھر وہ جالیاں ہوں نگاہوں کے سامنے

گزرے درِ حبیب پہ شب جالیوں کے پاس

شاہانِ ذی وقار سراپا سوال ہیں

بُھولے ہیں اپنے نام و نسب جالیوں کے پاس

صد مرحبا! تصورِ طیبہ کی یہ بہار

اب اپنے غم کدے میں ہوں ، اب جالیوں کے پاس

یہ بارگاہِ سیدِ عالم ہے ، احتیاط

اے جذبِ شوق ، حدِ ادب ، جالیوں کے پاس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]