کچھ اِس خیال سے شہ کے قریں نہیں جاتے

ہم ایسے لوگ جھکا کر جبیں نہیں جاتے

ستارے آب دکھاتے نہیں ہیں سورج کو

کہ آئنے کے مقابل حسیں نہیں جاتے

تمام شہر میں یوں تو بھٹکتے ہیں رستے

مگر جہاں پہ ہو جانا وہیں نہیں جاتے

تمھاری سوچ کے پنچھی نجوم کی صورت

فلک نشین ہیں سوئے زمیں نہیں جاتے

تمھارا مشغلہ تھا خواب سازیاں لیکن

ہماری آنکھ سے لعل و نگیں نہیں جاتے

کچھ ایسا خوف ہے اب کے فضاؤں میں اشعرؔ

کہ گھونسلوں سے پرندے کہیں نہیں جاتے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]