کھلیں گلاب تو آنکھیں کھلیں اچُنگ چلے

پون چلے تو مہک اسکے سنگ سنگ چلے

ہے میرا سوچ سفر فلسفے کے صحرا میں

ہوا کے دوش پہ جیسے کٹی پتنگ چلے

کسی کا ہو کے کوئی کس طرح رہے اپنا

رہِ سلوک پہ جیسے کوئی ملنگ چلے

طویل رات ہے ، بھیگی سحر ہے ، ٹھنڈی شام

بڑے ہوں تھوڑے سے دن تو بسنت رنگ چلے

وہ دور ہوں تو کٹے ساری رات آنکھوں میں

قریب آئیں تو قلب و نظر میں جنگ چلے

چلے ازل سے ابد کے لئے تو رستے ہیں

پڑاؤ دنیا میں ڈالا کہ کچھ درنگ چلے

خلا نورد ہیں ایسے بھی جو ستاروں میں

بنا کے تیشۂ فرہاد سے سرنگ چلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]