کھُلا ہے سبھی کے لئے باب رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنیٰ نہ عالی

مرادوں سے دامن نہیں کوئی خالی،قطاریں لگائے کھڑے ہیں سوالی

میں پہلے پہل جب مدینے گیا تھا تو تھی دل کی حالت تڑپ جانے والی

وہ دربار سچ مچ میرے سامنے تھا ابھی تک تصوّر تھا جس کا خیالی

جواک ہاتھ سے دل سنبھالے ہوئے تھا تو تھی دوسرے ہاتھ میں سبز جالی

دعا کے لیے ہاتھ اُٹھتے تو کیسے نہ یہ ہاتھ خالی نہ وہ ہاتھ خالی

جو پوچھا ہے تم نے کہ میں نذر کرنے کو کیا لے گیا تھا تو تفصیل سن لو

تھا نعتوں کااک ہار، اشکوں کے موتی، درودوں کاگجرا، سلاموں کی ڈالی

دھنی اپنی قسمت کا ہے تو وہی ہے دیار نبی جس نے آنکھوں سے دیکھا

مقدّر ہے سچا مقدّر اسی کا نگاہِ کرم جس پہ آقا نے ڈالی

میں اِس آستانِ حرم کا گدا ہوں جہاں سجدے کرتے ہیں شاہانِ عالم

مجھے تاجداروں سے کم مت سمجھنا مرا سر ہے شایان تاجِ بلالی

میں توصیف سرکار کر تو رہا ہوں مگر اپنی اوقات سے باخبر ہوں

میں صرف ایک ادنیٰ ثنا خواں ہوں ان کا کہاں میں کہاں نعت اقبالؔ و حالیؔ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]