ہر اک شے سے ترا جلوہ عیاں ہے
اگرچہ تو نگاہوں سے نہاں ہے
خدایا یہ جو اونچا آسماں ہے
تری رحمت کا مجھ پر سائباں ہے
میں بندہ ہوں تو رب دو جہاں ہے
تیری توصیف سے عاجز زباں ہے
پلا دے جام توحیدی خدایا
کہ تشنہ لب ہجوم میکشاں ہے
ہے تو محمود و معبود حقیقی
ترا حماد شاہ مرسلاں ہے
بشر اور تیری نعمت کی شمارش؟
بشر میں اس قدر طاقت کہاں ہے
تری قدرت کا مظہر رب اکبر
زمیں ہے آسماں ہے کہکشاں ہے
ہمیں کیوں ہو بھلا غم بے کسی کا
خدایا تو انیس بے کساں ہے
بھلا کیسے ہو مجھ کو خوف وحشت
خداوندا تو جب نزدیک جاں ہے
اذان حمد داور کیوں نہ دوں میں
اذاں یہ باعث تسکین جاں ہے
اے لوگو مت دکھاو قلب مومن
دل مومن مکان لا مکاں ہے
اہم ہے کس قدر دشمن شناسی
"الم اعھد الیکم” سے عیاں ہے
گناہوں پر میرے ڈالا ہے پردہ
گماں سے بھی سوا تو مہرباں ہے
کرم تیرا ہے خلاق دو عالم
جو میری زیست کی کشتی رواں ہے
بنا ذکر الہی کے جو گزرے
سماں وہ زندگی کا رائیگاں ہے
اسی پر ہو گیا باران نعمت
جو تیری نعمتوں کا قدرداں ہے
نہیں ہے اس لئے فکر معیشت
تو رزاق دو عالم بے گماں ہے
گواہی دے رہی ہیں دل کی آنکھیں
کہ ذرہ ذرہ تیرا مدح خواں ہے
عبادت جو کرے نوری خدا کی
تو اس کے واسطے باغ جناں ہے