کہاں میرے نبی کا کوئی ہمسر کوئی ثانی ہے

جدھر دیکھو بساطِ کن میں انکی وصف خوانی ہے

یہ بالکل صاف مفہوم حدیث من راٰنی ہے

سراپا آپ کا رب کی بڑی محکم نشانی ہے

بہت مسرور تھا مہتاب اپنی ضوفشانی پر

ترے تلووں کے آگے میرے آقا پانی پانی ہے

تحیر میں خرد ہے عقل و دانش ششدر و حیراں

سنا جب سے مکاں والا بھی کوئی لامکانی ہے

مرے سرکار کی ہے سلطنت سارے زمانے میں

مرے سرکار کی ہر ایک شے پر حکمرانی ہے

ابلتے ہیں معارف کے سمندر انکے لفظوں سے

کلام مصطفیٰ کا نام ہی کنزالمعانی ہے

جہاں کیا چیز ہے میں نے اگر سمجھا تو یہ سمجھا

خدا کا باغ ہے میرے نبی کی باغبانی ہے

بنایا امتی ان کا ، لقب خیر الامم بخشا

مرے اللہ کی کتنی بڑی یہ مہربانی ہے

وہ اصل کل، وہ جان دو جہاں، وہ ہادئ عالم

انھیں پر منحصر سارے زمانے کی کہانی ہے

نہ جانے کس بلندی پر ہے تو اے گنبد خضریٰ

تری رفعت پہ حیرت میں فراز آسمانی ہے

مٹا دے نورؔ جو انکی وفا میں اپنی ہستی کو

مقدر میں اسی کے بس حیات جاودانی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]