کہاں پہ جلوۂ جاناں کا انعکاس نہیں

نگاہ دیکھنے والی ترے ہی پاس نہیں

کوئی بھی شکل نہ دیکھی کہ جو اداس نہیں

ہوائے گلشنِ ہستی کسی کو راس نہیں

بفیضِ عشق میسر نہیں ہے کیا دل کو

خلش نہیں کہ نہیں رنج و غم کہ یاس نہیں

یہ قولِ اہلِ خرد ہے ہمیں نہیں کہتے

سکونِ دل کا مداوا خرد کے پاس نہیں

خود اپنی ذات کا عرفان تجھ پہ ہے لازم

کہ خود شناس نہیں جو خدا شناس نہیں

ستم کے بھیس میں پنہاں کوئی کرم ہو گا

ستم کرے وہ یہ کہتا مرا قیاس نہیں

کلام حق ہے مگر بات یہ بھی ہے بر حق

جنابِ شیخ کی باتوں میں کچھ مٹھاس نہیں

چمن پہ اہلِ چمن کے سبب گری بجلی

سنی ہے جب سے خبر یہ بجا حواس نہیں

نظرؔ فریب تو ہے دل پسند ہو نہ سکا

وہ پھول جس میں بجز رنگ کوئی باس نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]