کہکشاؤں کے سحر زیرِ قدم رہتے ہیں

زاویے فکر کے جب سوئے حرم رہتے ہیں

شہرِ خوشبو میں ہو دھڑکن پہ ادب کا پہرہ

سانس آہستہ، یہاں میرِ امم رہتے ہیں

ان کے دربار سے لوٹے ہیں تو حالت یہ ہے

ہجر کی گود میں با دیدۂ نم رہتے ہیں

طائرِ فکر کا محور ہے فضائے مدحت

خدمتِ نعت میں قرطاس و قلم رہتے ہیں

جلوۂ شاہِ دو عالم سے مہکتا ہے ارم

بہرِ دیدار، طلب گارِ ارم رہتے ہیں

نور والوں سے ہو نسبت تو اندھیرے کیسے

ان کو ہر موڑ پہ صد نور بہم رہتے ہیں

کربلا والوں کا غم دل میں بسا ہے جب سے

دور اشفاق سے سب رنج و الم رہتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]