کیا بگڑا ہے عشق گنوا کر ؟ خوش ہوں میں

کپڑے ، جوتے ، نوکر ، چاکر خوش ہوں میں

ٹھوکر مار کے چاک کے ٹکڑے کر ڈالے

خود اپنی ہی خاک اڑا کر خوش ہوں میں

دیکھ فقیرا خوشیاں اچھی خاصی ہیں

تو اب کوئی اور دعا کر ، خوش ہوں میں

دل کی آج بھڑاس نکالی ایسے بھی

شیشے کا گلدان گرا کر خوش ہوں میں

کھانے کو آتی تھی گھر کی خاموشی

تھوڑا سا کہرام مچا کر خوش ہوں میں

ماں کی گود میں دنیا بھر کی خوشیاں ہیں

اپنی ماں کے گھر میں آکر خوش ہوں میں

من میں بے شک ایک قیامت برپا ہو

کومل سب سے یار کہا کر ، خوش ہوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]