کیا سخن تھے کہ جو دل میں بھی چھپائے نہ گئے

لبِ اظہار تک آئے پہ سُنائے نہ گئے

ضعفِ مضرابِ تمنا کوئی دیکھے تو مرا

تار بھی بربطِ ہستی کے ہلائے نہ گئے

دل تو کافر ہی رہا توڑ کے بت خانہ بھی

بت کچھ ایسے تھے کہ نظروں سے گرائے نہ گئے

چشمِ نم بھول گئے، عارضِ تر بھول گئے

یہ الگ بات وہ آنسو ہی بھُلائے نہ گئے

میرے زخموں کا بھی درمان تو ممکن تھا مگر

زخم ایسے تھے مسیحا کو دکھائے نہ گئے

بارِ نفرت لئے پھرتی ہے یہ دنیا کیسے

ہم سے آزارِ محبت ہی اُٹھائے نہ گئے

دل کی دنیا پہ حکومت تو ملی تھی کچھ روز

چام کے دام مگر ہم سے چلائے نہ گئے

ہم وہ نادارِ محبت ہیں کہ ہنگامِ وداع

گوہرِ اشک بھی پلکوں پہ سجائے نہ گئے

ہم دوانوں سے خفا کیوں ہوئے اربابِ خرد

اُن کی دہلیز پہ ہم تو کبھی آئے نہ گئے

ہم نفس رات کے پھونکوں سے بجھا دیتے ہیں

جو دیئے تیز ہواؤں سے بجھائے نہ گئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]