کیا پتہ اب منتظر آنکھوں میں بینائی نہ ہو

کیا خبر ہم دستکیں دیں اور شنوائی نہ ہو

کیا پتہ بارانِ رحمت کا گذر محلوں سے ہو

کیا خبر کچّے مکانوں پر گھٹا چھائی نہ ہو

کیا پتہ جل جائیں سورج کی تمازت سے بدن

کیا خبر انجام اِس جذبے کا رسوائی نہ ہو

کیا پتہ اپنوں میں کوئی رنگ میرا ناں ملے

کیا خبر وہ اجنبی ہو کر مِرا آئینہ ہو

کیا پتہ تیری طلب سر پھوڑنا ہو سنگ سے

کیا خبر یہ بات ہم نے دِل کو سمجھائی نہ ہو

کیا پتہ چہرے سلگتے ہوں ابھی تک دھوپ میں

کیا خبر شبنم شگوفوں پر اُتر آئی نہ ہو

کیا پتہ لوٹیں تو سوچا ہو بہت کچھ کہنے کا

کیا خبر وہ سامنے آئے تو گویائی نہ ہو

کیا پتہ بچھ جائیں اشعرؔ رستہ رستہ دائرے

کیا خبر حاصل سفر کا آبلہ پائی نہ ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]