کیفیَّتِ حضوری و پیشی عجیب تھی

آقا نے میرے دل کی ہر اک اَن کہی سنی

طیبہ سے واپسی کا میں احوال کیا کہوں

مجھ میں تو زندگی کی رمق ہی نہیں رہی

جاتے ہوئے شگفتہ مزاجی تھی اوج پر

اب لوٹتے ہوئے تو ہے جاں پر بنی ہوئی

طیبہ سے واپسی کا وہ منظر عجیب تھا

دیوار و در سے میری نگہہ خود لپٹ گئی

میری زباں نے از رہِ عجزِ کلام پھر

طاقت ہی گفتگو کی سب اشکوں کو سونپ دی

حسنِ جمالِ اُسوۂ سردارِ انبیاء

قاصر ہیں جس کے ذکر سے اصنافِ شاعری

آقائے نامدار کے دربار کا مقام

انسانیت کے فکر و تخیُّل کی نارسی

طیبہ کی عظمتوں کو جو سوچوں تو یوں لگے

گھیرے ہوئے ہے نطق و تکلم کو بے بسی

بہلاؤں کس طرح سے دلِ ناصبور کو؟

پھر یاد آ رہی ہے مدینے کی حاضری

صد شکر بیتِ نعت میں وہ ذکر آ گیا

جس تک پہنچ نہ پائے گی انساں کی آگہی

ایسا جمال جس پہ نظر ٹِک نہیں سکے

ایسا کمال جس پہ لٹا دوں میں زندگی

طیبہ بنا وہ شہر حضور آپ کے طفیل

جس کی مثیل کوئی بھی بستی نہ ہو سکی

صد شکر دور رہ کے بھی میری نظر میں ہے

عرفاں فگن وہ گنبدِ اخضر کی روشنی

دل کو جو مل گئی ہے مدینے کی شہریت

اپنے وطن کی لگتی ہے ہر چیز اجنبی

خوش ہوں عزیزؔ میں نے بھی طیبہ کے ہجر میں

رودادِ زخمِ قلب و نظر، شعر میں لکھی!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]