کیوں ہوش رُباء وقت ترے خواب مٹائے

بہتر ہے کہ اب دل کو جگایا ہی نہ جائے

کل شب مجھے سنگسار کیا جائے گا لوگو

جس شخص کو بھی مجھ سےشکایت ہووہ آئے

تُو لوحِ تخیل پہ کہں نقش تھا ، سو ہے

یوں تو غمِ دوراں نے کئی باب بھلائے

ہوتا گیا روشن ، پسِ دیوار وہ جتنا

اتنا ہی مری سمت میں بڑھتے گئے سائے

اب کون دلِ خواب گزیدہ کی سنے گا

کم بخت نے اک عمر تماشے ہی دکھائے

کچھ تیری نفاست کو خبر بھی ہے کہ میں نے

کس طور حوادث میں ترے خواب بچائے

اب ہاتھ بھی رکھو تو افاقہ نہیں ہونا

اب درد دحڑکتا ہے یہاں دل کی بجائے

پھر لوٹ کے آئی نہیں افلاک سے دیوی

میں نے تو بہت گھر کے در و بام سجائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]