گدائے بے نوا ہے، اُن کا در ہے

طلب سے بھیک پائی بیشتر ہے

مری سرکار کے نقشِ قدم سے

فروزاں عاشقوں کی رہگزر ہے

گیا گمنام جو آقا کے در پہ

وہاں سے جب وہ لوٹا نامور ہے

چلو چلتے ہیں اُس عاشق سے ملنے

مدینہ سے جو آیا لوٹ کر ہے

بوقتِ امتحاں ثابت قدم ہے

علیؓ شیرِ خُدا کا، وہ پِسر ہے

شہیدِ کربلا، پیاسا، نواسہ

مری سرکار کا لختِ جگر ہے

مری پرواز ہے طیبہ کی جانب

سفر میرا، وسیلۂ ظفرؔ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]