گدا نواز ہے اور نازِ آب و گِل بھی ہے

وہ ایک نام جو وجہِ سکونِ دل بھی ہے

الگ یہ بات کہ بخشا ہے تُو نے اذنِ طلب

سخن اگرچہ مرا خام و منفعِل بھی ہے

تری عطا کے تسلسل میں ہے یہ ہدیۂ حرف

ترے کرم کے اشاروں پہ مشتمِل بھی ہے

درود پڑھ کے روانہ کروں گا بہرِ کرم

دعائے بندۂ عاجز کہ مضمحل بھی ہے

دراز ہوں ذرا خوابِ کرم کے یہ لمحے

سحَر رُکے بھی کہ یہ وصل میں مُخِل بھی ہے

وہ ایک زخم جو کربِ دروں کا تھا غمّاز

بہ فیضِ نعتِ نبی اب وہ مندمِل بھی ہے

وہ تیری یاد ہے، رکھتی ہے جو حصار کے بیچ

وہ تیرا اِسم ہے جو حرز بھی ہے، ظِل بھی ہے

میانِ حشر بچا لے گا یہ حوالۂ نعت

اگرچہ ہاتھ میں اِک دفترِ مُذِل بھی ہے

سخن کا ربط ہے قائم ہر ایک سانس کے ساتھ

بجز ثنائے نبی سب سے منفصِل بھی ہے

ملا ہے اذن تو اب بے سبب نہیں بے خود

بڑے دنوں سے یہ دل گرچہ معتدل بھی ہے

کمالِ لطف ہے توفیقِ نعت بھی مقصودؔ

عجب تو یہ ہے کہ یہ فیض متّصِل بھی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]