گرچہ سرورِ دیں کی، ساری آل خوشبو ہے

گل بدن علی اصغر، لازوال خوشبو ہے

اس کلی کی نکہت کے، رنگ و بو ہیں شیدائی

کربلا کے صحرا میں، بے مثال خوشبو ہے

کون اس کا ثانی ہے،چار دانگِ عالم میں

روپ رنگ اجلا ہے، بال بال خوشبو ہے

کم سنی میں آیا ہے، جو یزید کی زد میں

گلشنِ حسینی کا، نو نہال خوشبو ہے

جانبِ جناں اس کا، یہ سفر بتاتا ہے

بوستانِ جنت کا، ہر سوال خوشبو ہے

خلد کے گلستاں میں، اس گلابِ کمسن کا

پات پات چرچا ہے، ڈال ڈال خوشبو ہے

گرچہ روپ خوشبو کا، کوئی بھی نہیں ہوتا

یہ بدن ہے خوشبو کا، خوش جمال خوشبو ہے

منقبت بحضور سیدنا علی اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]