گرچہ مہنگا ہے مذہب ، خدا مُفت ہے

اک خریدو گے تو دوسرا مُفت ہے

آئینوں کی دکاں میں لکھا تھا کہیں

آپ اندھے ہیں تو آئینہ مُفت ہے

اُس نے پوچھا کہ پازیب کتنے کی ہے ؟

سارا بازار چِلّا اُٹھا : مُفت ہے

آخری سانس کے بعد عقدہ کُھلا

میں سمجھتا رہا تھا ہوا مُفت ہے

فیصلہ کیجیے ، بھاؤ تاؤ نہیں

یا محبت ہے انمول یا مُفت ہے

دوسرا جان دے کے بھی ملتا نہیں

عشق کی ڈور کا اک سِرا مُفت ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]