گرہ جو آگہی کی کھل رہی ہے

یہ سب عشقِ نبی کی روشنی ہے

یہاں کیا کام اندھے وسوسوں کا

یہاں چشمِ عقیدت جاگتی ہے

طلبگارِ گلِِ عشقِ نبی ہوں

اثر میری دُعا کا شبنمی ہے

لبِ تیرہ پہ پھر وہ اسم چمکا

صباحت پھر ہویدا ہو رہی ہے

جمالِ مصطفےٰ خضرِ خرد ہے

یہاں معذور فکرِ سامری ہے

لبوں پر ثبت اک مُہرِ کشش ہے

تمنا پُر ضیائے اسودی ہے

ہوں سر تا پا فدا بادِ وطن پر

یہی ٹھنڈی ہَوا ان کو لگی ہے

یہ آئینہ سفینہ بن گیا ہے

ذرا پہلے بڑی بارش ہوئی ہے

وہاں کیا کام اندھے وسوسوں کا

جہاں چشمِ عقیدت جاگتی ہے

بہارِ وجہِ کُن سے زندگی کے

تنفس میں کلی مہکی ہوئی ہے

زیارت سے ہے اوجِ کج مقدر

زیارت ہی مری خوش قامتی ہے

درود آنکھوں کے ہونٹوں پر ہے گویا

محبت جس جگہ ہو بولتی ہے

ہے مثلِِ برق اک اشکِ ندامت

وگرنہ سست رَو کو اک صدی ہے

جبینِ حزن پر انکی گلی میں

شکن پڑنے سے پہلے سوچتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]