گلی گلی میں اتر چکے ہیں کتاب آنکھوں کے زندہ نوحے

حسین چہروں کا سرخ ماتم شراب آنکھوں کے زندہ نوحے

زمیں کے سینے میں زندہ ہیں جو اگر سماعت ہے سن سکو تو

مری نگاہوں سے آج سن لو حجاب آنکھوں کے زندہ نوحے

کہ میری غزلوں میں میری نظموں میں کرب آ کر سمٹ گیا ہے

مرے قلم سے نکل رہے ہیں جناب آنکھوں کے زندہ نوحے

یہ کس کے دل میں اتر رہا ہے عذاب آنکھوں کا اشک بن کر

یہ کس کے چہرے سے کر رہے ہیں خطاب آنکھوں کے زندہ نوحے

میں طاہرؔ ان کے لبوں کی مسکان چاہ کر بھی نہ لکھ سکوں گا

کہ ساتھ میرے رہے ہیں جن کی گلاب آنکھوں کے زندہ نوحے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]