گو اپنی قید میں پیارے ہم اتنے سال رہے

تیرے خیال سے لیکن نہ بے خیال رہے

وہ آںکھ ہی نہ ملی جو کہ دیکھ بھی سکتی

ہر اک جواب کے پیچھے کئی سوال رہے

میں تجھ کو دیکھوں تو پھر لمبی تان کے سو جاؤں

کہ حشر تک میرا ساتھی ترا جمال رہے

جو سہہ نہ سکتا ہو اپنے زوال کا صدمہ

یہ لازمی ہے کہ وہ شخص بے کمال رہے

غمِ فراق کے نرغے میں ہے امیدِ وصال

ہر اک لڑائی کی حد ہے احتمال رہے

ہوں میرے بیٹے میں اوصاف اُس کے دادا کے

کہ میرے ماضی سے پیوست میرا حال رہے

کہ جاٹ لوگ کبھی خوں بہا نہیں لیتے

تو قتل کر مجھے اے جاں! مگر خیال رہے

وہ ایک دن بھی طلوع ہو خوشی کا ، جنگل میں

وہ ایک دن کہ شکاری رہے ، نہ جال رہے

عجیب ہے کہ جو افضلؔ بھی ہیں اور احسنؔ بھی

وہ لوگ گردشِ دوراں سے پائمال رہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]